شراب خانہ ترا ایسا انتخاب نہیں ہے
خواص پیتے ہیں سب کے لیے شراب نہیں ہے
شکار ظلم کا جو ہیں انہیں پہ ہے ہر شدت
وہ جو ہیں ظالم ان پر کوئی عتاب نہیں ہے
یہ تیرا فرض ہے ساقی ملے سبھی کو برابر
ہے تیرا منصب ساقی کوئی خطاب نہیں ہے
یہاں تو کوئی نہیں آدمی سبھی ہیں فرشتے
مرے علاوہ یہاں پر کوئی بھی خراب نہیں ہے
فروغ کیفیت بادہ سے ہوا ہے یہ شاداب
نہ پڑھ یہ چہرہ مرا یہ کوئی کتاب نہیں ہے
سراب واہمہ نظروں کے سامنے موجود
دھڑک رہا ہے جو ادراک میں سراب نہیں ہے
غزل
شراب خانہ ترا ایسا انتخاب نہیں ہے
کمال احمد صدیقی