EN हिंदी
شق عافیت کنار کنارے کو کر گئی | شیح شیری
shaq aafiyat-kanar kinare ko kar gai

غزل

شق عافیت کنار کنارے کو کر گئی

شفقت تنویر مرزا

;

شق عافیت کنار کنارے کو کر گئی
دریا کی موج سر کو پٹک کر گزر گئی

تہمت کا سیل صبح کو اٹھنے لگا کہ شب
دستک تھی ایک در پہ صدا در بدر گئی

غارت گر سکوں تھیں نوا ہائے خون بلب
جنگل کی شام شہر میں آئی تو ڈر گئی

روتا پھرے گا رات کے رستوں پہ ماہتاب
آغوش ارض خاک تو سورج سے بھر گئی

آرام جاں تھا خواب سکوں آنکھ جب کھلی
سیل فنا اتر گیا مٹی بکھر گئی

ناکردہ کاریوں کی پشیمانیاں نہ پوچھ
عمر عزیز ڈھونڈتے پھریے کدھر گئی

تیرے حضور کون سا نذرانہ تھا قبول
دل سا گہر بھی لے کے مری چشم تر گئی

دیوار و در پہ جن کے لہو بولتا رہا
موج فنا وہ سارے مکاں ڈھیر کر گئی

خوشبوئے مرگ کا نہ ٹھکانہ ملا کوئی
میں بھی غبار راہ رہا وہ جدھر گئی

اب گوش بر صدا ہوئے ہم دوستو تو کیا
آواز دور کی تھی سماعت سفر گئی