شناسائے حقیقت ہو گئے ہیں
وہ سب تصویر عبرت ہو گئے ہیں
دکھاتے ہیں وہ رستہ قافلوں کو
جو محروم بصارت ہو گئے ہیں
فصیل شہر کے اندر نہ جانا
وہ سارے گرگ صورت ہو گئے ہیں
فروزاں ہیں بلاوے ساحلوں کے
اسیر موج ظلمت ہو گئے ہیں
جبینوں پر رقم آیات شفقت
قتیل تیغ نفرت ہو گئے ہیں

غزل
شناسائے حقیقت ہو گئے ہیں
حامدی کاشمیری