EN हिंदी
شمشیر میری، میری سپر کس کے پاس ہے | شیح شیری
shamshir meri, meri sipar kis ke pas hai

غزل

شمشیر میری، میری سپر کس کے پاس ہے

جون ایلیا

;

شمشیر میری، میری سپر کس کے پاس ہے
دو میرا خود پر مرا سر کس کے پاس ہے

درپیش ایک کام ہے ہمت کا ساتھیو
کسنا ہے مجھ کو میری کمر کس کے پاس ہے

طاری ہو مجھ پہ کون سی حالت مجھے بتاؤ
میرا حساب نفع و ضرر کس کے پاس ہے

اے اہل شہر میں تو دعا گوئے شہر ہوں
لب پر مرے دعا ہے اثر کس کے پاس ہے

داد و ستد کے شہر میں ہونے کو آئی شام
خواہش ہے میرے پاس خبر کس کے پاس ہے

پر حال ہوں پہ صورت احوال کچھ نہیں
حیرت ہے میرے پاس نظر کس کے پاس ہے

اک آفتاب ہے مری جیب نگاہ میں
پہنائی نمود سحر کس کے پاس ہے

قصہ کشور کا نہیں کوشک کا ہے کہ ہے
دروازہ سب کے پاس ہے گھر کس کے پاس ہے

مہمان قصر ہیں ہمیں کچھ رمز چاہئیں
یہ پوچھ کے بتاؤ کھنڈر کس کے پاس ہے

اتھلا سا ناف پیالہ ہماری نہیں تلاش
اے لڑکیو! بتاؤ بھنور کس کے پاس ہے

ناخن بڑھے ہوئے ہیں مرے مجھ سے کر حذر
یہ جا کے دیکھ نیل کٹر کس کے پاس ہے