شمشیر برہنہ مانگ غضب بالوں کی مہک پھر ویسی ہی
جوڑے کی گندھاوٹ قہر خدا بالوں کی مہک پھر ویسی ہی
razor-sharp hair's parting line, the luster in her eye's divine
enrapturing, her coiffure's braid, scent of her tresses does pervade
آنکھیں ہیں کٹورا سی وہ ستم گردن ہے صراحی دار غضب
اور اسی میں شراب سرخی پاں رکھتی ہے جھلک پھر ویسی ہی
--------
--------
ہر بات میں اس کی گرمی ہے ہر ناز میں اس کے شوخی ہے
قامت ہے قیامت چال پری چلنے میں پھڑک پھر ویسی ہی
warmth in everything she says, in all her airs there mischief plays
slender and tall, fairy like grace, a flutter in her every pace
گر رنگ بھبوکا آتش ہے اور بینی شعلۂ سرکش ہے
تو بجلی سی کوندے ہے پری عارض کی چمک پھر ویسی ہی
--------
--------
نوخیز کچیں دو غنچہ ہیں ہے نرم شکم اک خرمن گل
باریک کمر جو شاخ گل رکھتی ہے لچک پھر ویسی ہی
--------
--------
ہے ناف کوئی گرداب بلا اور گول سریں رانیں ہیں صفا
ہے ساق بلوریں شمع ضیا پاؤں کی کفک پھر ویسی ہی
--------
--------
محرم ہے حباب آب رواں سورج کی کرن ہے اس پہ لپٹ
جالی کی کرتی ہے وہ بلا گوٹے کی دھنک پھر ویسی ہی
her breasts in silken bustier, rays of the sun adhere to her
her lacy blouse does so ignite, shimmering with golden light
وہ گائے تو آفت لائے ہے ہر تال میں لیوے جان نکال
ناچ اس کا اٹھائے سو فتنے گھنگرو کی جھنک پھر ویسی ہی
when she sings storms are in spate, at every tune my life's forfeit
her dancing raises mutiny, bells on her feet a symphony
ہر بات پہ ہم سے وہ جو ظفرؔ کرتا ہے لگاوٹ مدت سے
اور اس کی چاہت رکھتے ہیں ہم آج تلک پھر ویسی ہی
at every step she does restrain, zafar, for long I've tried in vain
and yet the love I've felt for her, does to this very day recur
غزل
شمشیر برہنہ مانگ غضب بالوں کی مہک پھر ویسی ہی
بہادر شاہ ظفر