شمع نازاں ہے فقط سر سے بھڑک جانے میں آگ
پھونک دے سارا جہاں ہے گی وہ پروانے میں آگ
شعلۂ شمع حرم حسن بتاں سے ہے خجل
مجھ کو خطرہ ہے کہ لگ جائے نہ بت خانے میں آگ
دیکھنا گرمی کی خوبی میری باری جب آئے
جائے مے ساقی نے بھر دی مرے پیمانے میں آگ
شیخ کی سمرن شماری میں کوئی گرمی نہیں
چشم بینا ہو تو ظاہر ہے ہر اک دانے میں آگ
آتشیں نالے وہ مجنوں کے مجھے آتے ہیں یاد
دیکھتا ہوں جو کہیں دہکے ہے ویرانے میں آگ
بے دماغی ہے بجا اس کے فسانے سے مری
خواب کیا لاوے وہ پنہاں ہو جس افسانے میں آگ
کب ہنسا تھا میں بھلا جلنے پہ پروانے کے لطفؔ
دفعتاً پھونکی مری جائے گی جو کاشانے میں آگ

غزل
شمع نازاں ہے فقط سر سے بھڑک جانے میں آگ
مرزا علی لطف