شمع میں سوز کی وہ خو ہے نہ پروانے میں
جو ہے اے برق شمائل ترے دیوانے میں
لطف تھا ذکر دل سوختہ دہرانے میں
سوز ہے ساز کہاں طور کے افسانے میں
تھا جو اس چشم فسوں ساز کے پیمانے میں
کیف وہ ڈھونڈئیے اب کون ہے میخانے میں
واسطہ دست نگاریں کا تجھے اے قاتل
ایک سرخی کی کمی ہے مرے افسانے میں
جو کبھی تھا وہی ہے آج بھی افسانۂ عشق
ایک دو لفظ بدل جاتے ہیں دہرانے میں
موت بھی منحصر ان کی نگہ ناز پہ تھی
اب نہیں کوئی کمی عشق کے افسانے میں
وہی شے جو ابھی مینا میں تھی اک موج نشاط
وہی طوفان طرب بن گئی پیمانے میں
قول واعظ کا بجا شیخ کی تلقین درست
دل کافر کہیں آئے بھی تو سمجھانے میں
قید ہستی کو سمجھتا ہے جنوں کی توہین
اب تو کچھ ہوش کے انداز ہیں دیوانے میں
شکر بن جاتے ہیں آتے ہی زباں تک شکوے
جانے کیا بات ہے اس آنکھ کے شرمانے میں
کس طرح حضرت واعظ کو یہ سمجھاؤں رشیدؔ
رند کیا دیکھ لیا کرتے ہیں پیمانے میں
غزل
شمع میں سوز کی وہ خو ہے نہ پروانے میں
رشید شاہجہانپوری