شمع کی طرح شب غم میں پگھلتے رہئے
صبح ہو جائے گی جلتے ہیں تو جلتے رہئے
وقت چلتا ہے اڑاتا ہوا لمحات کی گرد
پیرہن فکر کا ہر روز بدلتے رہئے
آئنہ سامنے آئے گا تو سچ بولے گا
آپ چہرے جو بدلتے ہیں بدلتے رہئے
آئی منزل تو قدم آپ ہی رک جائیں گے
زیست کو راہ سفر جان کے چلتے رہیے
صبح ہو جائے گی ہاتھ آ نہ سکے گا مہتاب
آپ اگر خواب میں چلتے ہیں تو چلتے رہئے
عہد امروز ہو یا وعدۂ فردا منظورؔ
ٹوٹنے والے کھلونے ہیں بہلتے رہئے

غزل
شمع کی طرح شب غم میں پگھلتے رہئے
ملک زادہ منظور احمد