شمع کی آغوش خالی کر کے پروانہ چلا
آگے آگے تھی حقیقت پیچھے افسانہ چلا
کون دیوانہ تھا جو ہم راہ دیوانہ چلا
شکل گرد رہ گزر کچھ دور ویرانہ چلا
حلقۂ سود زیاں سے ہو کے بیگانہ چلا
بے نیازانہ تھا آیا بے نیازانہ چلا
یہ بھی اک رسم تعلق ہے بقدر آگہی
بات کعبے کی جو آئی ذکر بت خانہ چلا
کچھ اشارے کچھ کنائے کچھ خموشی کچھ بیان
گفتگو کا سلسلہ بھی راز دارانہ چلا
لن ترانی کیا بری تھی بہر تقریب سخن
کیوں نہ لے کر پھر کوئی ذوق کلیمانہ چلا

غزل
شمع کی آغوش خالی کر کے پروانہ چلا
رضا جونپوری