شمع محفل ہو کے بھی گرویدۂ محفل نہیں
میں ہوں دنیا میں مگر دنیا میں میرا دل نہیں
میرے دل کی دھڑکنیں جب تک ہیں طوفاں سینکڑوں
موج بیتابی ہے میری زندگی ساحل نہیں
یہ نمازوں میں خیال جنت و حور و قصور
زاہد کج بیں ابھی نو مشق ہے کامل نہیں
بے نیاز فکر منزل بے خودی نے کر دیا
اب مرے دامن پہ داغ حسرت منزل نہیں
نا خدا کیوں آسماں کو تک رہا ہے بار بار
رخ ادھر کشتی کا اب کر دے جدھر ساحل نہیں
اک دل دیوانہ تھا جاتا رہا جانے بھی دو
یہ کہو کیوں آج کل سی رونق محفل نہیں
میری فطرت ہی نہیں قیصرؔ کہ میں چھپ کر پیوں
جس میں کھٹکا ہو وہ جنت بھی مرے قابل نہیں
غزل
شمع محفل ہو کے بھی گرویدۂ محفل نہیں
قیصر امراوتوی