شمع کشتہ کی طرح میں تری محفل سے اٹھا
آہ کیسی وہ دھواں تھا جو بجھے دل سے اٹھا
کھیل ہے ہستئ موہوم مگر ہے دلچسپ
جو یہاں بیٹھ گیا آ کے وہ مشکل سے اٹھا
تو نے یہ کس کو اٹھایا ہے کہ دل بیٹھ گئے
کون بیٹھا ہے کہ فتنہ تری محفل سے اٹھا
کون غرقاب ہوا ہے کہ اڑاتا ہوا خاک
آج بے تاب بگولا لب ساحل سے اٹھا
ہم سفر ہے کوئی افتاد تو پیش آنے کو
کہ قدم آج الجھتا ہوا منزل سے اٹھا
جی چرانے کی نہیں شرط دل زار یہاں
رنج اٹھانے ہی کی ٹھہری ہے تو پھر دل سے اٹھا
اہل حق بھی یہیں مل جائیں گے اٹھ تو ناطقؔ
حق کی آواز تو بت خانۂ باطل سے اٹھا

غزل
شمع کشتہ کی طرح میں تری محفل سے اٹھا
ناطق گلاوٹھی