شمع حسرت جلا گئے آنسو
رونق دل بڑھا گئے آنسو
ضبط غم کی شکستگی مت پوچھ
ان کی آنکھوں میں آ گئے آنسو
آ گئی کام دل کی بے تابی
خلش غم بڑھا گئے آنسو
تھم گئے جب فراق میں نالے
دل میں طوفاں اٹھا گئے آنسو
جس کو دل سے لگا کے رکھا تھا
وہ خزانہ لٹا گئے آنسو
کیا قیامت تھی پردہ داریٔ غم
مسکراتے ہی آ گئے آنسو
غزل
شمع حسرت جلا گئے آنسو
صفیہ شمیم