شجر سے مل کے جو رونے لگا تھا
پرندہ ڈار سے بچھڑا ہوا تھا
ٹھہرتا ہی نہ تھا دریا کہیں پر
مگر تصویر میں دیکھا گیا تھا
میں تشنہ لب اگرچہ لوٹ آیا
مگر دریا کو یہ مہنگا پڑا تھا
درون دل خلش ایسی کھلی تھی
کہ جس کا رنگ چہرے پر اڑا تھا
میں جب نکلا تمنا کے سفر پر
مرے رستے میں اک صحرا پڑا تھا
یہ دنیا جس گھڑی گزری یہاں سے
میں تیرے خواب میں کھویا ہوا تھا
محبت آگ ہے ایسی کہ جلنا
دلوں کے بخت میں لکھا گیا تھا
غزل
شجر سے مل کے جو رونے لگا تھا
عتیق احمد