شجر سمجھ کے مرا احترام کرتے ہیں
پرندے رات کو مجھ میں قیام کرتے ہیں
سنو تم آخر شب گفتگو درختوں کی
یہ کم کلام بھی کیا کیا کلام کرتے ہیں
کہاں کی زندگی ہم کو تو شرم مار گئی
کہ تیری چیز ہے اور تیرے نام کرتے ہیں
ہمیں تو اس لیے جائے نماز چاہئے ہے
کہ ہم وجود سے باہر قیام کرتے ہیں
اگر کبھی مجھے موجودگاں سے فرصت ہو
تو رفتگاں مری نیندیں حرام کرتے ہیں
لہو کے گھونٹ نہ پیتا تو اور کیا کرتا
وہ کہہ رہے تھے ترا انتظام کرتے ہیں
ہمیں سماعت بے لفظ کی اجازت ہے
ہمارے ساتھ پرندے کلام کرتے ہیں
ابھی تو گھر میں نہ بیٹھیں کہو بزرگوں سے
ابھی تو شہر کے بچے سلام کرتے ہیں
غزل
شجر سمجھ کے مرا احترام کرتے ہیں
عباس تابش