شجر جلتے ہیں شاخیں جل رہی ہیں
ہوائیں ہیں کہ پیہم چل رہی ہیں
طلب رد طلب دونوں قیامت
یہ آنکھیں عمر بھر جل تھل رہی ہیں
چمکتا چاند چہرہ سامنے تھا
امنگیں بحر تھیں بیکل رہی ہیں
دبے پاؤں مری تنہائیوں میں
ہوائیں خواب بن کر چل رہی ہیں
سحر دم صحبت رفتہ کی یادیں
مرے پہلو میں آنکھیں مل رہی ہیں
تری یاد اور بے خوابی کی راتیں
یہ پلکیں آنکھ پر بوجھل رہی ہیں
بہت پیچیدہ ہیں چاہت کے انداز
کہ اب دل داریاں بھی کھل رہی ہیں
ترازو ہیں خرد مندوں کے دل میں
وہی باتیں جو بے-اٹکل رہی ہیں
ضیاؔ ان ساعتوں میں عمر گزری
کھلی آنکھوں سے جو اوجھل رہی ہیں
غزل
شجر جلتے ہیں شاخیں جل رہی ہیں
ضیا جالندھری