EN हिंदी
شجر امید بھی جل گیا وہ وفا کی شاخ بھی جل گئی | شیح شیری
shajar-e-ummid bhi jal gaya wo wafa ki shaKH bhi jal gai

غزل

شجر امید بھی جل گیا وہ وفا کی شاخ بھی جل گئی

گلنار آفرین

;

شجر امید بھی جل گیا وہ وفا کی شاخ بھی جل گئی
مرے دل کا نقشہ بدل گیا مری صبح رات میں ڈھل گئی

وہی زندگی جو بہر نفس جو بہر قدم مرے ساتھ تھی
کبھی میرا ساتھ بھی چھوڑ کر مری منزلیں بھی بدل گئی

نہ وہ آرزو ہے نہ جستجو نہ کوئی تصور رنگ و بو
لیے دل میں داغ غم خزاں میں چمن سے دور نکل گئی

تری چال پوری نہ ہو سکی ترا وار خالی چلا گیا
ذرا دیکھ گردش آسماں کہ میں گرتے گرتے سنبھل گئی

تری چاہتوں سے سنور گئے یہ مرے جمال کے آئینے
میں گلاب بن کے مہک اٹھی میں شفق کے رنگ میں ڈھل گئی

یہ طلسم موسم گل نہیں کہ یہ معجزہ ہے بہار کا
وہ کلی جو شاخ سے گر گئی وہ صبا کی گود میں پل گئی

وہی ساعت غم آرزو جو ہمیشہ دل میں بسی رہی
ہے خدا کا شکر کہ آفریںؔ وہ ہمارے سر سے تو ٹل گئی