EN हिंदी
شہر سنسان ہے کدھر جائیں | شیح شیری
shahr sunsan hai kidhar jaen

غزل

شہر سنسان ہے کدھر جائیں

ناصر کاظمی

;

شہر سنسان ہے کدھر جائیں
خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں

رات کتنی گزر گئی لیکن
اتنی ہمت نہیں کہ گھر جائیں

یوں ترے دھیان سے لرزتا ہوں
جیسے پتے ہوا سے ڈر جائیں

ان اجالوں کی دھن میں پھرتا ہوں
چھب دکھاتے ہی جو گزر جائیں

رین اندھیری ہے اور کنارہ دور
چاند نکلے تو پار اتر جائیں