شہر سے کوئی مضافات میں آیا ہوا تھا
ایک باشندہ مری گھات میں آیا ہوا تھا
یوں ہی کاٹے نہیں دشمن نے مرے دونوں ہاتھ
اس سے زر بڑھ کے مرے ہاتھ میں آیا ہوا تھا
اب جہاں خشک زمینیں ہیں بدن ہیں بنجر
یہ علاقہ کبھی برسات میں آیا ہوا تھا
آخری ریل تھی اور تجھ سے اچانک تھا ملاپ
میں عجب صورت حالات میں آیا ہوا تھا
اس طرح بانٹ دیا تو نے مجھے حصوں میں
جس طرح میں تجھے خیرات میں آیا ہوا تھا
میری پہچان بنے پیڑ پرندے اور پھول
سارا دیہات مری ذات میں آیا ہوا تھا

غزل
شہر سے کوئی مضافات میں آیا ہوا تھا
راشد امین