شہر میں تھا نہ ترے حسن کا یہ شور کبھو
مصر اس جنس سے اتنا نہ تھا معمور کبھو
عشق میں داد نہ چاہو کہ سنا ہم نے نہیں
عدل و انصاف کا اس ملک میں دستور کبھو
فکر مرہم کا مرے واسطے مت کر ناصح
خوب ہوتا نہیں اس عشق کا ناسور کبھو
گو نہ کر وعدہ وفا دے نہ مجھے اس کا جواب
مجھ سے ملنا بھی سجن ہے تجھے منظور کبھو
اپنی بے دردی کی سوگند ہے تجھ کو اے مرگ
تو نے دیکھا ہے یقیںؔ سا کوئی رنجور کبھو
غزل
شہر میں تھا نہ ترے حسن کا یہ شور کبھو
انعام اللہ خاں یقینؔ