شہر میں شور ہے اس شوخ کے آ جانے کا
ہر کوئی روپ بھرے پھرتا ہے دیوانے کا
رند و واعظ تھے بہم دست و گریباں کل رات
جانے کیا حال ہوا شیشہ و پیمانے کا
شب کا عالم تھا جدا دن کے تقاضے کچھ اور
اس سے کیا ذکر کریں رات کے افسانے کا
تر بہ تر خون میں ہے دامن امید بہار
ہاتھ میں زخم ہے ٹوٹے ہوئے پیمانے کا
اس کی آنکھوں میں وہی رنگ وہی حسن طلب
دل کو سمجھائیں مگر فائدہ سمجھانے کا
صحن مسجد کا ہے اور حافظؔ و-خیامؔ کے شعر
جام غائب میں مگر رنگ ہے مے خانے کا

غزل
شہر میں شور ہے اس شوخ کے آ جانے کا
حسن عابد