شہر میں سائباں بہت سے ہیں
پھر بھی کیوں بے اماں بہت سے ہیں
ڈر گئے ایک امتحان سے تم
میری جاں! امتحاں بہت سے ہیں
لٹ گیا ایک کارواں تو کیا
راہ میں کارواں بہت سے ہیں
راز الفت کے ہم نہیں مجرم
آپ کے راز داں بہت سے ہیں
تیری ہی ہم نوا نہیں دنیا
میرے بھی ہم زباں بہت سے ہیں
اس زمین سخن میں اے جامیؔ
دیکھنا آسماں بہت سے ہیں
غزل
شہر میں سائباں بہت سے ہیں
سید معراج جامی