شہر میں کیسا خطر لگتا ہے
اپنے سائے سے بھی ڈر لگتا ہے
آج پھر دل ہے دعا پر مائل
بند پھر باب اثر لگتا ہے
کچھ وقار در و دیوار نہیں
ہو مکیں گھر میں تو گھر لگتا ہے
آشیاں جس میں پرندوں کے نہ ہوں
کتنا تنہا وہ شجر لگتا ہے
آسماں کتنا جھک آیا ہے شریفؔ
سر اٹھاتا ہوں تو سر لگتا ہے

غزل
شہر میں کیسا خطر لگتا ہے
شریف احمد شریف