شہر میں جب بھی زلیخا سے خریدار آئے
کتنے یوسف تھے کہ خود ہی سر بازار آئے
چھیڑ دی قامت و گیسو کی حکایت ہم نے
کسی صورت سے تو ذکر رسن و دار آئے
جب بھی زنداں میں اسیروں کو ملا مژدۂ گل
میری نظروں میں تمہارے لب و رخسار آئے
دوسری راہ وفا میں کوئی منزل ہی نہ تھی
جو تری بزم سے اٹھے وہ سر دار آئے
جب کیا ترک تمنا کا ارادہ ہم نے
سامنے کتنے ہی ٹوٹے ہوئے پندار آئے
ہوش مندوں نے سجا لی غم دل کی محفل
ہم سے دیوانے سر انجمن دار آئے
ہم سے سیکھے کوئی آداب قدح نوشی کے
ہم کہ میخانے میں غافل گئے ہشیار آئے
غور سے دیکھ سخن فہموں کے چہرے سرشارؔ
کتنے اس شکل میں غالبؔ کے طرفدار آئے
غزل
شہر میں جب بھی زلیخا سے خریدار آئے
سرشار صدیقی