شہر میں اک قتل کی افواہ روشن کیا ہوئی
اک طرف تکبیر تھی اور اک طرف جے کی پکار
خوف و دہشت کے اثر سے چند بپھرے نوجواں
زندگی کو کر رہے تھے ہر طرف کھل کر شکار
خون سے لتھڑی ہوئی لاشیں اٹھائے گود میں
آسماں کی سمت مائیں دیکھتی تھیں بار بار
جبر و استحصال کے اس آتشیں سیلاب میں
بہہ گئے انسانیت کے لہلہاتے برگ و بار
پھر ہوا یوں کرفیو کی خامشی کے درمیاں
درد میں ڈوبی ہوئی آئی قلندر کی پکار

غزل
شہر میں اک قتل کی افواہ روشن کیا ہوئی (ردیف .. ر)
شارق عدیل