شہر میں ایک عجب خاک بہ سر آیا ہے
کوئی افتاد پڑی ہے کہ ادھر آیا ہے
یہ تو اس شہر کے رستے بھی سمجھتے ہوں گے
آنے والا بڑی راہوں سے گزر آیا ہے
کون جوگی ہے کہیں جس کا بسیرا نہ پڑاؤ
کیا مسافر ہے کہ بے شام و سحر آیا ہے
کیسا وحشی ہے کہ وحشت کی حدیں توڑ گیا
کوئی صحرا کی طرف جا کے بھی گھر آیا ہے
ہر خم جادہ کھلا صورت گیسو کیسا
ہر خط سنگ میں کیا تجھ کو نظر آیا ہے
بزم یاراں نگراں غول حریفاں رقصاں
اک تماشا بہ تماشائے دگر آیا ہے
زندگی کرنے لگی شہر کے حلقے میں طواف
راستہ کوہ سے دریا میں اتر آیا ہے
کب اٹھا بار کرم لیکن اٹھا ہے اس بار
وقت گردش میں کب آیا تھا مگر آیا ہے
وہی امکان غروب اور وہی سامان طلوع
یا سفر ختم ہے یا وقت سفر آیا ہے

غزل
شہر میں ایک عجب خاک بہ سر آیا ہے
محشر بدایونی