EN हिंदी
شہر لگتا ہے بیابان مجھے | شیح شیری
shahr lagta hai bayaban mujhe

غزل

شہر لگتا ہے بیابان مجھے

یوسف ظفر

;

شہر لگتا ہے بیابان مجھے
کہیں ملتا نہیں انسان مجھے

میں ترا نقش قدم ہوں اے دوست
اپنے انداز سے پہچان مجھے

میں تجھے جان سمجھ بیٹھا ہوں
اپنے سائے کی طرح جان مجھے

تو کہاں ہے کہ ترے پردے میں
لیے پھرتا ہے ترا دھیان مجھے

تیری خوشبو کو صبا لائی تھی
کر گئی اور پریشان مجھے

سر و سامان دو عالم ہوں میں
کیوں کہو بے سر و سامان مجھے

میری ہستی ترا افسانہ تھی
موت نے دے دیا عنوان مجھے

دل کی دھڑکن پہ گماں ہوتا ہے
ڈھونڈھتا ہے کوئی ہر آن مجھے

میں بھی آئینہ ہوں تیرا لیکن
تو نے دیکھا کبھی حیران مجھے

ان کی نسبت کا کرشمہ ہے ظفرؔ
کہتے ہیں یوسف کنعان مجھے