شہر کو چوٹ پہ رکھتی ہے گجر میں کوئی چیز
بلیاں ڈھونڈھتی رہتی ہیں کھنڈر میں کوئی چیز
چاک ہیں زخم کے پانی میں ہوا میں ناسور
مٹھیاں تول کے نکلی ہے سفر میں کوئی چیز
بارہا آنکھیں گھنی کرتا ہوں اس پہ پھر بھی
چھوٹ رہتی ہے نگہ سے گل تر میں کوئی چیز
کبھی بیٹھک سے رسوئی کبھی دالان سے چھت
باؤلی پھرتی ہے تجھ بن مرے گھر میں کوئی چیز
زندگی آگ پہ لیٹی ہوئی پرچھائیں ہے کیا
بس دھواں دیتی ہے ہر وقت جگر میں کوئی چیز
شہر ثانی میں شجرکاری نہ کی دانستہ
پھر نکل آئے کہیں برگ و ثمر میں کوئی چیز
حشر تک جیتی رہیں گی مری غزلیں تفضیلؔ
آکسیجن سی لبالب ہے ہنر میں کوئی چیز
غزل
شہر کو چوٹ پہ رکھتی ہے گجر میں کوئی چیز
تفضیل احمد