EN हिंदी
شہر کی رسم ہے پرانی وہی | شیح شیری
shahr ki rasm hai purani wahi

غزل

شہر کی رسم ہے پرانی وہی

قیصر عباس

;

شہر کی رسم ہے پرانی وہی
سازشیں تازہ ہیں کہانی وہی

درد کے موسموں سے کیا امید
سب بلائیں ہیں آسمانی وہی

پھر سے کھینچو حفاظتوں کے حصار
پھر ہے دریاؤں کی روانی وہی

ہم فقیروں کے حوصلے دیکھو
زخم جتنے ہوں سرگرانی وہی

سارے آثار ہیں جدائی کے
سرمئی شام ہے سہانی وہی

خار بوئے تو زخم پالیں گے
وقت دہرائے گا کہانی وہی

یوں تو صدیاں گزر گئیں قیصرؔ
دل کے صدمے تری جوانی وہی