شہر کے لوگ جسے تیری ستم زائی کہیں
ہم بہرحال اسے اپنی پذیرائی کہیں
تیرے احباب ہمیں غیر سمجھتے ہی رہے
تیرے دشمن ہمیں اب تک ترا شیدائی کہیں
یہ شرف بھی تری چاہت میں ملا ہے ہم کو
تیرے سب چاہنے والے ہمیں سودائی کہیں
ہم سجاتے ہیں شب و روز ترے ذکر کے ساتھ
ہم قفس میں بھی وہی نغمۂ صحرائی کہیں
لاکھ ٹوٹے ہیں سروں پر تری الفت میں پہاڑ
تیرے دیوانے پہاڑوں کو مگر رائی کہیں
تجھ کو شکوہ ہے یہاں آ کے تجھے بھول گئے
ہم بھلا کس سے قفس میں غم تنہائی کہیں
ہم نے چاہا تجھے زنداں کی سلاخوں کے عوض
اسے نادانی کہیں یا اسے دانائی کہیں
غزل
شہر کے لوگ جسے تیری ستم زائی کہیں
صفدر سلیم سیال