شہر کے فٹ پاتھ پر کچھ چبھتے منظر دیکھنا
سرد راتوں میں کبھی گھر سے نکل کر دیکھنا
یہ سمجھ لو تشنگی کا دور سر پر آ گیا
رات کو خوابوں میں رہ رہ کر سمندر دیکھنا
کس کے ہاتھوں میں ہیں پتھر کون خالی ہاتھ ہے
یہ سمجھنے کے لیے شیشہ سا بن کر دیکھنا
بے حسی ہے بزدلی ہے حوصلہ مندی نہیں
بیٹھ کر ساحل پہ طوفانوں کے تیور دیکھنا
اے مرے آنگن کے سائے اے مرے پھل دار پیڑ
تیری قسمت میں ہے اب پتھر ہی پتھر دیکھنا
یہ ستم یہ شورشیں تمہید ہیں اس بات کی
بستی بستی ہر طرف خوں کا سمندر دیکھنا
غزل
شہر کے فٹ پاتھ پر کچھ چبھتے منظر دیکھنا
سعید اختر