EN हिंदी
شہر کے دیوار و در پر رت کی زردی چھائی تھی | شیح شیری
shahr ke diwar-o-dar par rut ki zardi chhai thi

غزل

شہر کے دیوار و در پر رت کی زردی چھائی تھی

تاج سعید

;

شہر کے دیوار و در پر رت کی زردی چھائی تھی
ہر شجر ہر پیڑ کی قسمت میں اب تنہائی تھی

جینے والوں کا مقدر شہرتیں بنتی رہیں
مرنے والوں کے لیے اب دشت کی تنہائی تھی

چشم پوشی کا کسی ذی ہوش کو یارا نہ تھا
رت صلیب و دار کی اس شہر میں پھر آئی تھی

میں نے ظلمت کے فسوں سے بھاگنا چاہا مگر
میرے پیچھے بھاگتی پھرتی مری رسوائی تھی

بارشوں کی رت میں کوئی کیا لکھے آخر سعیدؔ
لفظ کے چہروں کی رنگت بھی بہت دھندلائی تھی