EN हिंदी
شہر کا شہر لٹیرا ہے نظر میں رکھیے | شیح شیری
shahr ka shahr luTera hai nazar mein rakhiye

غزل

شہر کا شہر لٹیرا ہے نظر میں رکھیے

محسن احسان

;

شہر کا شہر لٹیرا ہے نظر میں رکھیے
اب متاع غم جاناں بھی نہ گھر میں رکھیے

کیا خبر کون سے رستے میں وہ رہزن مل جائے
اپنا سایہ بھی نہ اب ساتھ سفر میں رکھیے

اب کہیں سے نہ خریدار وفا آئے گا
اب کوئی جنس نہ بازار ہنر میں رکھیے

سر دیوار وہ خورشید بکف آیا ہے
اب چراغ دل و جاں راہ گزر میں رکھیے

شعلۂ درد لیے دل زدگاں نکلے ہیں
اب کوئی آگ نئی برق و شرر میں رکھیے

چشمۂ چشم پہ محسنؔ وہ نہانے آیا
اب سدا اس کو اسی دیدۂ تر میں رکھیے