EN हिंदी
شہر کا شہر حریف‌ لب و رخسار ملا | شیح شیری
shahr ka shahr harif-e-lab-o-ruKHsar mila

غزل

شہر کا شہر حریف‌ لب و رخسار ملا

منظر ایوبی

;

شہر کا شہر حریف‌ لب و رخسار ملا
نام میرا ہی لکھا کیوں سر دیوار ملا

سوچتے سوچتے دھندلا گئے یادوں کے نقوش
فکر کو میرے نہ اب تک لب اظہار ملا

مشتہر کر دیا اتنا تری چاہت نے مجھے
نام گھر گھر میں مرا صورت اخبار ملا

جس کی قربت کو ترستا تھا زمانہ کل تک
آج وہ شخص اکیلا سر بازار ملا

میری سچائی کو اس وقت سراہا تو نے
سر پہ جب باندھ کے میں جھوٹ کی دستار ملا

آنکھوں آنکھوں ہی میں لہرائیں بہاریں منظرؔ
اک شجر بھی نہ بھرے باغ میں پھل دار ملا