شہر اپنا ہے مگر لوگ کہاں ہیں اپنے
کہنے سننے کو زماں اور مکاں ہیں اپنے
یہ دعا فرض سمجھ کر میں کیے جاتا ہوں
خیر سے خوش رہیں احباب جہاں ہیں اپنے
کب الگ تھی مری دنیا سے جو جنت چھوٹی
کوئی اپنا تھا وہاں اور نہ یہاں ہیں اپنے
آئنہ میز کا اپنی کبھی حصہ نہ بنا
شہر میں کہنے کو سب شیشہ گراں ہیں اپنے
آج کے سارے یقیں ان کے لیے ان کے لیے
رنگ جو بدلیں وہ اسباب گماں ہیں اپنے
اپنے چہرے کی خبر جن کو نہیں ہے افسرؔ
ان کی آنکھوں پہ سبھی عیب عیاں ہیں اپنے
غزل
شہر اپنا ہے مگر لوگ کہاں ہیں اپنے
رزاق افسر