شگفتہ ہو کے بیٹھے تھے وہ اپنے بے قراروں میں
تڑپ بجلی کی پیدا ہو گئی پھولوں کے ہاروں میں
کیا اندھیر اپنے رنج نے ان کی کدورت نے
بجھی شمع محبت ہائے دو دل کے غباروں میں
شب فرقت کو زاہد سے سوا مر مر کے کاٹا ہے
کرے مشہور ہم کو بھی خدا شب زندہ داروں میں
یہ کس نے کشتۂ تیغ تبسم کر دیا مجھ کو
مبارک باد کا غل ہو رہا ہے سوگواروں میں
وہ عشرت جس کا سب ساماں ہے دل میں ہو نہیں سکتی
مری مجبوریوں کو دیکھیے ان اختیاروں میں
ہمیں وہ ڈھب جو آ جاتا تمہیں پر آزماتے ہم
دل عشاق تم کیا کہہ کے لیتے ہو اشاروں میں
سفیرؔ اب بس کرو کب تک سر شوریدہ زانو پر
غزل کی فکر کیوں کر ہو سکے گی انتشاروں میں
غزل
شگفتہ ہو کے بیٹھے تھے وہ اپنے بے قراروں میں
سید فرزند احمد صفیر