شفق بھی خون کی بوچھار سی ہے
یہ سرخی شہر کے اخبار سی ہے
کٹیلے ہیں ترے لفظ و بیاں سب
قلم خنجر زباں تلوار سی ہے
کسی بھی چیز میں لگتا نہیں دل
طبیعت بن ترے بیزار سی ہے
تم اپنے روپ سے خود آئنہ ہو
تمہارے روبرو کیوں آرسی ہے
یہ ساری قربتیں رسمی ہیں یعنی
دلوں کے درمیاں دیوار سی ہے
جو ہم خود کو مہاجر مان بھی لیں
تو کس کی حیثیت انصار سی ہے
یہاں لوگوں نے لکھ رکھا ہے کیا کچھ
فصیل شہر بھی اخبار سی ہے
نظر آیا ہے پھر مہتابؔ کوئی
طبیعت پھر جنوں آثار سی ہے
غزل
شفق بھی خون کی بوچھار سی ہے
مہتاب عالم