شبنم کو ریت پھول کو کانٹا بنا دیا
ہم نے تو اپنے باغ کو صحرا بنا دیا
اس اونچ نیچ پر تو ٹھہرتے نہیں تھے پاؤں
کس دست شوق نے اسے دنیا بنا دیا
کن مٹھیوں نے بیج بکھیرے زمین پر
کن بارشوں نے اس کو تماشا بنا دیا
سیراب کر دیا تری موج خرام نے
رکھا جہاں قدم وہاں دریا بنا دیا
اک رات چاندنی مرے بستر پہ آئی تھی
میں نے تراش کر ترا چہرہ بنا دیا
پوچھے اگر کوئی تو اسے کیا بتاؤں میں
دل کیا تھا، تیرے غم نے اسے کیا بنا دیا
غزل
شبنم کو ریت پھول کو کانٹا بنا دیا
احمد مشتاق