شبنم آلود پلک یاد آئی
گل عارض کی جھلک یاد آئی
پھر سلگنے لگے یادوں کے کھنڈر
پھر کوئی تاک خنک یاد آئی
کبھی زلفوں کی گھٹا نے گھیرا
کبھی آنکھوں کی چمک یاد آئی
پھر کسی دھیان نے ڈیرے ڈالے
کوئی آوارہ مہک یاد آئی
پھر کوئی نغمہ گلو گیر ہوا
کوئی بے نام کسک یاد آئی
ذرے پھر مائل رم ہیں ناصرؔ
پھر انہیں سیر فلک یاد آئی
غزل
شبنم آلود پلک یاد آئی
ناصر کاظمی