EN हिंदी
شبیہ روح کچھ ایسے نکھار دی گئی ہے | شیح شیری
shabih-e-ruh kuchh aise nikhaar di gai hai

غزل

شبیہ روح کچھ ایسے نکھار دی گئی ہے

سنجے مصرا شوق

;

شبیہ روح کچھ ایسے نکھار دی گئی ہے
انا فقیروں کے کاسے پہ وار دی گئی ہے

تمہارے دل پہ بھی کچھ تو اثر ہوا ہوگا
گرے پڑے ہوئے لفظوں کو دھار دی گئی ہے

ہماری آنکھ کے آنسو ثبوت ہیں اس کا
ہنسی ہمارے لبوں کو ادھار دی گئی ہے

مرے بدن کے قفس آسماں سے پھر اس بار
زوال صبح کی سرخی گزار دی گئی ہے

بلند قامتی چبھنے لگی تھی دنیا کو
سو میرے کاندھوں سے گردن اتار دی گئی ہے

نمو کے آخری امکان ڈھونڈھنے کے لئے
مجھے زمیں بھی خلاؤں کے پار دی گئی ہے

طویل ہجر کی مدت بھی ہم فقیروں کو
خلوص دل سے بصد اختصار دی گئی ہے

ہماری روح تو کچے مکان میں خوش تھی
تو کیوں بدن کو حیات مزار دی گئی ہے