شب رنگ پرندے رگ و ریشے میں اتر جائیں
کہسار اگر میری جگہ ہوں تو بکھر جائیں
ہر سمت سیہ گرد کی چادر سی تنی ہے
سورج کے مسافر بھی ادھر آئیں تو مر جائیں
سب کھیل ہواؤں کے اشاروں پہ ہے ورنہ
موجیں کہاں مختار کہ جی چاہے جدھر جائیں
اس دشت میں پانی کے سوا ڈھونڈھنا کیا ہے
آنکھوں میں مری ریت کے سو ذائقے بھر جائیں
سائے کی طرح ساتھ ہی چلتا ہے سیہ بخت
اب ہاتھ کی بیچاری لکیریں بھی کدھر جائیں
غزل
شب رنگ پرندے رگ و ریشے میں اتر جائیں
احسن یوسف زئی