شب و روز جیسے ٹھہر گئے کوئی ناز ہے نہ نیاز ہے
ترے ہجر میں یہ پتا چلا مری عمر کتنی دراز ہے
یہ جہاں ہے محبس بے اماں کوئی سانس لے تو بھلا کہاں
ترا حسن آ گیا درمیاں یہی زندگی کا جواز ہے
ہو بدن کے لوچ کا کیا بیاں کسی نے کی موج ہے پرفشاں
کوئی لے ہے زیر قبا نہاں کوئی شے بہ صورت راز ہے
ترے غم سے دل پھر امیر ہو کوئی چاند نکلے سفیر ہو
شب دشت ہو ہے یہ زندگی نہ نشیب ہے نہ فراز ہے
چلے طائر اڑ کے پس شفق ہے اداس اداس رخ افق
کہ بیاض شام کا ہر ورق تری داستان دراز ہے
اگر احتیاط خطاب ہو لب سنگ کھل کے گلاب ہو
تو کسی صنم کو صدا تو دے در بت کدہ ابھی باز ہے
وہی روپ ساغر جم میں بھی وہی عکس دیدۂ نم میں بھی
مرے واسطے تو حرم میں بھی وہی شاذؔ روئے مجاز ہے
غزل
شب و روز جیسے ٹھہر گئے کوئی ناز ہے نہ نیاز ہے
شاذ تمکنت