شب کس سے یہ ہم جدا رہے ہیں
تا صبح نپٹ خفا رہے ہیں
آنا ہے تو آ وگرنہ پیارے
ہم آپ سے آج جا رہے ہیں
بیٹھیں پس کار خویش کیوں کر
جو ناز ترے اٹھا رہے ہیں
ویرانے سے میرے ڈر نہ اے چغد
اک وقت تو یاں ہما رہے ہیں
اے ہستی تو کھینچ نقش باطل
ہم ہیں تو اسے مٹا رہے ہیں
پھر عازم گریہ ہوں کہ طوفاں
جوں ابر نظر میں چھا رہے ہیں
رونا ہے اگر یہی تو قائمؔ
اک خلق کو ہم ڈبا رہے ہیں

غزل
شب کس سے یہ ہم جدا رہے ہیں
قائم چاندپوری