EN हिंदी
شب کی تاریکی بڑھتی ہی جائے | شیح شیری
shab ki tariki baDhti hi jae

غزل

شب کی تاریکی بڑھتی ہی جائے

دید راہی

;

شب کی تاریکی بڑھتی ہی جائے
کون آتا ہے زلف بکھرائے

جھلملائے ستاروں کے جھرمٹ
کس کی پلکوں پہ اشک تھرائے

اس کی جو بات ہے نرالی ہے
دل ناداں کو کون سمجھائے

ان کو بھولے زمانہ ہوتا ہے
اشک آنکھوں میں پھر بھی بھر آئے

دم بخود ساری کائنات ہوئی
ہم نے وہ گیت پیار کے گائے