EN हिंदी
شب کی دہلیز سے کس ہاتھ نے پھینکا پتھر | شیح شیری
shab ki dahliz se kis hath ne phenka patthar

غزل

شب کی دہلیز سے کس ہاتھ نے پھینکا پتھر

حسن اختر جلیل

;

شب کی دہلیز سے کس ہاتھ نے پھینکا پتھر
ہو گیا صبح کا مہکا ہوا چہرہ پتھر

کچھ انوکھی تو نہیں میری محبت کی شکست
آئنے جب بھی مقابل ہوئے جیتا پتھر

اس طلسمات کی وادی میں پلٹ کر بھی نہ دیکھ
ورنہ ہو جائے گا خود تیرا سراپا پتھر

یاد کی لہر بہا لائی ہے کس دیس مجھے
ہے یہاں وقت کا بہتا ہوا دریا پتھر

کس کے پیکر میں سماتا مرے احساس کا لوچ
میں نے انساں سے خجل ہو کے تراشا پتھر

تیری آنکھوں میں ابھی نیند کے ڈورے کیوں ہیں
یاں تو اک چوٹ سے ہو جاتے ہیں بینا پتھر

کند کر دیتا ہے یوں ذہن کو حالات کا زہر
جیسے بن جائے چمکتا ہوا سونا پتھر

تیری سوچوں کی قسم اے مرے خاموش خدا
مجھ سے کرتے ہیں اطاعت کا تقاضا پتھر

مجھ سے مایوس نہ پلٹے مری تقدیر کے غم
میری انگلی میں نہ تھا کوئی چمکتا پتھر

کتنی دل دار ہے ساحل کی چمکتی ہوئی ریت
اب نہیں پاؤں تلے کوئی نکیلا پتھر

میں سر دار کھڑا ہوں کئی صدیوں سے جلیلؔ
کون مارے گا مرے جسم پہ پہلا پتھر