شب کہ وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا
رشتۂ ہر شمع خار کسوت فانوس تھا
مشہد عاشق سے کوسوں تک جو اگتی ہے حنا
کس قدر یارب ہلاک حسرت پا بوس تھا
حاصل الفت نہ دیکھا جز شکست آرزو
دل بہ دل پیوستہ گویا یک لب افسوس تھا
کیا کہوں بیماریٔ غم کی فراغت کا بیاں
جو کہ کھایا خون دل بے منت کیموس تھا
بت پرستی ہے بہار نقش بند یہائے دہر
ہر صریر خامہ میں یک نالۂ ناقوس تھا
طبع کی واشد نے رنگ یک گلستاں گل کیا
یہ دل وابستہ گویا بیضۂ طاؤس تھا
کل اسدؔ کو ہم نے دیکھا گوشۂ غم خانہ میں
دست برسر سر بزانوئے دل مایوس تھا
غزل
شب کہ وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا
مرزا غالب