EN हिंदी
شب کے تاریک سمندر سے گزر آیا ہوں | شیح شیری
shab ke tarik samundar se guzar aaya hun

غزل

شب کے تاریک سمندر سے گزر آیا ہوں

ظفر غوری

;

شب کے تاریک سمندر سے گزر آیا ہوں
ٹوٹا تارہ ہوں خلاؤں سے اتر آیا ہوں

تجھ سے جو ہو نہ سکا کام وہ کر آیا ہوں
آسماں چھوڑ کے دھرتی پہ اتر آیا ہوں

دشت تنہائی میں بکھرا ہوں ہواؤں کی طرح
اک صدا بن کے دل سنگ میں در آیا ہوں

جانے کس خوف سے پھرتا ہوں میں گھبرایا ہوا
کیا بلا بن کے میں خود اپنے ہی سر آیا ہوں

دل شکستہ سے در و بام کی مدت کے بعد
خیریت پوچھنے اجڑے ہوئے گھر آیا ہوں

شوخ راتوں کے لئے میرے تعاقب میں نہ آ
درد کا چاند ہوں خوابوں میں نظر آیا ہوں

اپنا سایہ بھی ظفرؔ مجھ کو نہ پہچان سکا
کس نئے بھیس میں میں آج ادھر آیا ہوں