شب ہائے عیش کا وہ زمانہ کدھر گیا
وہ خواب کیا ہوا وہ فسانہ کدھر گیا
وہ گل رخوں سے ہنسنا ہنسانا کدھر گیا
ان کو ستا ستا کے رلانا کدھر گیا
شب بھر کی مے کشی کا مزیدار وہ خمار
اور صبح کا وہ وقت سہانا کدھر گیا
بچپن کے کھیل کود جوانی کے ذوق و شوق
وہ خواب کیا ہوا وہ فسانہ کدھر گیا
ہر روز روز عید تھا ہر شب شب برات
وہ دن کہاں گئے وہ زمانہ کدھر گیا
تیری نگاہ کا نہ مرے دل کا ہے پتا
وہ تیر کیا ہوا وہ نشانہ کدھر گیا
پہلے تو کچھ بھی قدر نہ جانی شباب کی
اب رو رہے ہیں ہم وہ زمانہ کدھر گیا
جو پیکر وفا تھے سراپا خلوص تھے
وہ لوگ کیا ہوئے وہ زمانہ کدھر گیا
میت پہ میری آ کے وہ یہ پوچھتے ہیں شوقؔ
کیوں آج درد دل کا فسانہ کدھر گیا

غزل
شب ہائے عیش کا وہ زمانہ کدھر گیا
شوق دہلوی مکی