شب وصال تھی روشن فضا میں بیٹھا تھا
میں تیرے سایۂ لطف و عطا میں بیٹھا تھا
تمام عمر اسے ڈھونڈنے میں صرف ہوئی
جو چھپ کے میرے بدن کی گپھا میں بیٹھا تھا
نئی رتوں کی ہوا لے اڑی لباس اس کا
وہ کل تلک تو حریم حیا میں بیٹھا تھا
درون قافلہ آثار تھے بغاوت کے
عجب سا خوف دل رہنما میں بیٹھا تھا
ذرا سی بات نے اوقات کھول دی اس کی
وہ کب سے بند حصار انا میں بیٹھا تھا
نظر اٹھا کے تم اے کاش دیکھ ہی لیتے
میں نذر جاں لئے راہ وفا میں بیٹھا تھا
لہو سے اس کے ملی دین کو بقائے دوام
وہ قافلہ جو کبھی کربلا میں بیٹھا تھا
اسی نے لوٹی تھی ابلا کی آبرو کل رات
سویرے بن کے جو مکھیا سبھا میں بیٹھا تھا
بس اک شکست نے سارے نشے اتار دیئے
وہ تاجدار الگ سی ہوا میں بیٹھا تھا
چلائیں گولیاں جس پر منافقوں نے شبابؔ
صف نماز میں یاد خدا میں بیٹھا تھا
غزل
شب وصال تھی روشن فضا میں بیٹھا تھا
شباب للت