EN हिंदी
شب وعدہ کہہ گئی ہے شب غم دراز رکھنا | شیح شیری
shab-e-wada kah gai hai shab-e-gham daraaz rakhna

غزل

شب وعدہ کہہ گئی ہے شب غم دراز رکھنا

شاذ تمکنت

;

شب وعدہ کہہ گئی ہے شب غم دراز رکھنا
اسے میں بھی راز رکھوں اسے تم بھی راز رکھنا

یہ ہے خار خار وادی یوں ہی زخم زخم چلنا
یہ ہے پتھروں کی بستی یوں ہی دل گداز رکھنا

ہمہ تن جنوں ہوں پھر بھی رہے کچھ تو پردہ داری
کہ برا نہیں خرد سے کوئی ساز باز رکھنا

مرے ناخن‌ وفا پر کوئی قرض رہ نہ جائے
ترے دل میں جو گرہ ہے اسے نیم باز رکھنا

وہی لے جو ان سنی بھی وہی شاذؔ نغمگی بھی
یہ حساب خامشی بھی مرے نے نواز رکھنا