شب تاریک ہوں نور سحر ہونے کی خواہش ہے
میں ایسا ہو نہیں سکتا مگر ہونے کی خواہش ہے
محبت کے مقابل آ گئی ہے دوستی یارو
ادھر میں ہو نہیں سکتا جدھر ہونے کی خواہش ہے
وگرنہ تیرا ہونا اور نہ ہونا ایک جیسا ہے
کسی اہل نظر سے مل اگر ہونے کی خواہش ہے
رضاؔ اک دن تجھے اپنی نظر سے بھی گرا دے گی
یہ جوہر اک نظر میں معتبر ہونے کی خواہش ہے
غزل
شب تاریک ہوں نور سحر ہونے کی خواہش ہے
توقیر رضا